پیر، 22 مئی، 2023

قسطیں زندگی کی.....


قسطیں  


نیم  کی ٹھنڈی ہواؤں نے اسکی مخمور آنکھوں کو  ایک اور خواب  سے آراستہ کیا

کاش زندگی خواب ہی ہوتی پھر کسی تعبیر کا انتظار نہ ہوتا

اور  ہر  پل جوان ہوتا، ہر پل حسین ہوتا

خیر ممکن تو خیالوں پر دسترس بھی نہیں تھی 

اب تو بس سوچ پر ہی گزارا تھا 

زندگی کا ہر باب طےشدہ ہوتا ہے،قسطوں میں  ہی کھلتا ہے 

یہ سمجھنے کا وقت بھی اپنے وقت پر ہی ملتا ہے 

ورنہ زندگی الہام ہوجاتی 

اگلے پل کی تیاری میں  کوشاں انسان اپنی پہچان کھو بیٹھتا 

خدا نے اپنی حکمت بندے کی فطرت میں  چھپا رکھی تھی

  سو اگلے پل سے بےخبر اس پل سے لطف  اندوز  ہوتا رہا دل 

چلو  نشاط  کی یہ گھڑی  خیالی گھوڑے  پر  سوار ہو کر ہی ملنی تھی 

رباب آنکھوں پر ہاتھ رکھے آسمان تلے سوچتی رہی   

یوں تو وقت کے پر بھی تھے پرواز بھی

 یوں تو اسکے دل بھی تھا آواز بھی 

مگر خاموشی کا اپنا الگ ہی مزاج تھا 

  جستجو کا آغاز انہی خاموش پلوں کی دین  تھا 

عجب کشش تھی اس خاموشی میں 

ہر کشمکش   کا جواب تھے وہ  خاموش بولتے لمحے 

عمر کا وہ موڈ  ہزاروں خواہشوں کی پگڈنڈیوں کو پھلانگتا 

اسی خاموشی میں  مدغم ہونے کی آرزو میں جوان تھا

  رباب اپنے نام کی ہی  طرح  ترنگوں میں  مگن    ایک مکمل خوش فہمی تھی

  دل کا حال بھی عجب ہوتا ہے 

کبھی تنہا محفل ہوتا ہے 

کبھی سنگت پا کر کھل اٹھتا  ہے  

وہ تو خود  میں ایک انجمن تھی

اسے  نہ جانے  کونسی تلاش تھی 

اسکے دل کو نہ جانے کیسی آس تھی 

وہ  تو انجان تھی کاتب تقدیر کے فیصلوں سے 

میاں صاحب کا گھرانہ  روشن آباد  میں کسی تعارف کا محتاج نہیں تھا 

  انکی دو لڑکیاں  تھیں عارفہ  اور راحیلہ 

رباب،لبنیٰ عدیل عارفہ   کی اولاد تھیں 

صندل اور فیض راحیلہ کے بچے تھے 

سب  میں بےحد  محبت تھی 

موسم  گرما  ہو کے سرما سب اکھٹا ہوجاتے 

پھر خوب  دھما چوکڑی  مچا کرتی  

میاں  صاحب   کے دبدبے نے بچوں  کو آداب زندگی کی تعلیم دی  

تعظیم کے اصلی معنے  سمجھاے  تھے 

میاں  صاحب کی بیگم بہت سادہ لوح تھیں 

دونوں کی جوڑی بڑی  ہی رنگارنگی تھی 

ایک زندہ دل شخص   کی بیوی کا مثالی نمونہ تھیں آمنہ بیگم 

ہمیشہ اپنے بچوں میں  گھرداری میں  مہمانوں میں  مگن رہتیں 

اور انکی دونوں لڑکیاں اپنی  مثال  آپ تھیں 

ماں  پر پروانہ وار جان نثار تھیں 

والد کے روبرو بولتی بندھ رہتی 

غرض ایک مکمل زندگی سے بھرپور گھرانہ تھا 

جہاں نہ رشتوں کی نہ محببتوں  کی کمی تھی 

محبّت تو وراثت میں  ملی تھی

زندگی کے سارے انمول رنگ بن مانگے ہی پاے  تھے   

   جو رہ گیا تھا وہ قادر مطلق  نے آنے والے وقتوں کے لئے سنبھال کر رکھا تھا

بڑی دیر سے دروازہ کھٹکھٹا رہا تھا کوئی 

ارے اس وقت کون آیا ہے آمنہ بیگم حیران ہوییں 

انکے بڑے داماد حسن تھے 

آئیے  مسکراکر استقبال کیا انکا 

سب خیر تو ہے 

ہاں ہاں خدا کا شکر ہے 

بس میاں صاحب  سے کچھ مشورہ کرنا تھا 

اچھا اچھا وہ  بھی بس ابھی ابھی آے  ہیں

حسن کی آواز سن کر آگیے میاں صاحب 

آمنہ  چاے کی تیاری میں لگ گیئں      



قسطیں زندگی کی.....

قسطیں   نیم  کی ٹھنڈی ہواؤں نے اسکی مخمور آنکھوں کو  ایک اور خواب  سے آراستہ کیا کاش زندگی خواب ہی ہوتی پھر کسی تعبیر کا انتظار نہ ہوتا اور ...